خود کلامی لکھنے سے پہلے میں یہی کام زبانی کلامی کرتا تھا۔ گھر میں کرتا تو کہتے باہر جا۔ باہر کرتا تو لوگ جمائیاں لیتے کہتے جا گھر جا۔ شروع ہی سے مجھے کامل یقین تھا کہ تمام بڑے ادیب ، لکھاری اور فلسفی اسی کیفیت سے گزرتے ہیں۔ یعنی آہیڈ آف ٹائم ۔۔اُرلے لوگ پروا نہیں کرتے۔ لہذا اپنے آپ کو اس اُرلی منزل پر تصور کرتے ہوئے آگے بڑھو۔ اس وقت تک مجھے صرف گائے کا مضمون ہی لکھنا آتا تھا۔ لیکن مجھے انڈر ایسٹمیٹ نہ کریں۔ میں گائے کا مضمون بھی چھ مختلف طریقوں سے لکھ سکتا ہوں: گائے اعظم ، ایک گائے کا آنکھوں دیکھا حال ، گائے کی سیر، گائے کے فوائد و نقصانات ، گائے کی آپ بیتی۔۔۔ خیر اتنا تو مجھے پتا چل چکا تھا کہ آپ ایک ہی گائے بار بار نہیں مار سکتے۔ عظیم سے عظیم سیریل بھی چند اقساط کے بعد ٹھس ہوجاتا ہے ، یہ تو پھر گائے ہے۔ کالج کے اولین دنوں میں ایک شفیق استاد مولوی منیر حسن کے زیرتربیت میں سنجیدہ ادب سے شدید متاثر ہوا۔ تصنیف کی ٹھانی تو اس سلسلے میں پہلا اہم کام کسی پبلشر کی تلاش تھی۔ بقول مولوی صاحب اگر پبلشر نہ ملا تو انجام مولوی صاحب والا ہوسکتا ہے۔ جانے اس سے ان کی کیا مراد تھی؟ خیرخدا خدا کرکے پبلشر کی تلاش کا کام شروع کیا گیا۔ برصغیر پاک و ہند کے تمام نامور اشاعتی اداروں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد آخر میری نگاہ انتخاب مجید بیکری سوڈیوال پر ٹھہر گئی۔ طے پایا کہ ہروڈی ڈبل روٹی کے لفافے میں ایک عدد افسانہ پھنسایا جائے گا جس کے عوض فاضل افسانہ نگار حامل ہذا (ڈبل روٹی) کو ہدیہ مطالبہ پر ادا کرے گا۔ کاروبار کے آغاز میں کچھ سرمایہ تو لگانا پڑتا ہے۔ تاہم سوڈیوال جیسے بیک ورڈ علاقے میں کلاسیکی ادب کی کوئی قدر نہ ہونے کے سبب ٹارزن کی کہانیوں کا یہ سلسلہ ذیادہ دیر جاری نہ رہ سکا۔ اس کل عرصہ میں جتنا سرمایہ خرچ ہوا اس سے میں اپنی بیکری کھول سکتا تھا۔ لیکن میں ہمت ہارنے والا بندہ نہیں۔ ہمیشہ فرنٹ میں باں ڈالی ہے۔ مایوسی کے بادل جلد ہی چھوٹ گئے اور میرا باہر کا "دا" لگ گیا۔
باہر آکر میں نے بڑے بڑے ہاتھ پاؤں مارے۔ گورے کے دیس میں محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ چیپٹرز والوں کے ساتھ ڈیل ہوگئی۔ معاوضہ معقول تھا۔ ہفتے میں چالیس گھنٹے کام۔دوسروں کی کتابیں انہی کے نام سے فروخت کرنا تھیں۔ لیکن میری طبع خود بیزاری کو یہ کہاں گوارا تھا۔ ناول نگاری سے مایوس ہوکر میں نے اسکرپٹ رائٹنگ پر ہاتھ چلائے۔ لیکن اسکرپٹ میں چیخیں کم ہونے کے سبب Vivid Entertainment سے معاملہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ جہاں لوگ دس منٹ کا کلپ دیکھ لیتے ہوں وہاں اشٹوری کون پوچھتا ہے۔
اُدھرسیانے کا کہنا تھا کہ ہمت نہ ہارو۔ اگر اُرلے لوگ پروا نہیں کرتے تو پرلوں پر قسمت آزماؤ۔ میں نے یہ نصیحت پلے باندھ لی۔ تصنیف کے ساتھ ساتھ اشاعت کی ذمہ داری بھی اٹھاتے ہوئے اردو بلاگستان میں اپنی ذاتی دکان کھولی۔ تاہم کاروباری دنیا کا ایک لافانی اصول ہے کہ آپ آؤٹ آف سیزن مال نہیں بیچ سکتے پاویں کچھ ہوجائے۔ میرا آہیڈ آف ٹائم درحقیقت آؤٹ آف ٹائم ثابت ہوا۔ اپنے عہد بلاگنگ کے حوالے سے اس موقع پر وہ غمگین غزل یاد آرہی ہے:
؎ عثمان بدنام ہوا۔۔۔بلاگنگ تیرے لئے
فی الوقت سیانے کا نادر مشورہ ہے کہ لکھنا چھوڑو اور ٹائپنگ شروع کرو۔ نیا بلاگ بناؤ۔ ہمرا سوہنا جیوے پاکستان۔ کینیڈا کی روٹیوں پر پاکستانی آٹے کا غم کرو۔ لیکن بے غیرتی بھی کوئی چیز ہے اور میں اس میں کافی خصیص طبیعت واقع ہوا ہوں۔
مثل مشہور ہے کہ تاریخ آپ کی گھماتی ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ادھر بھی ہے۔ برسوں بعد مجھے ایک بار پھر ذہنی خشک سالی کا سامنا ہے۔ کینیڈا کی سردی کی وجہ سے میرے سر میں کھرک پڑ چکی ہے۔ خارش کرنے پر ان لکھی تحاریر کے باسی الفاظ جھڑتے ہیں۔ اب تو میں ڈبل روٹی بھی نہیں کھا سکتا۔ فی الوقت میں نے ایک گھوسٹ مرشد کے ہاتھ بیعت کی ہے۔ جو مجھے ہر قسم کا فن سکھائے گا۔ تو بس پھر۔۔
قارئین کرام۔۔
اگر آپ سال نو پر مجھ میں کوئی تبدیلی محسوس کریں۔ کہ کیسے میں بوٹوں کے تسمے سلجھاتے سلجھاتے تاریخ کی گھتیاں سلجھا لیتا ہوں۔ اگر آپ مجھے گاڑی کے پرزے درست کرتے ہوئے اس میں سے انسانی جذبات کشیدکرتا پائیں۔ اگر آپ دیکھیں کہ میں چیونٹیوں کی ہجرت میں تاریخ پاکستان سمو سکتا ہوں۔ اگر آپ دیکھیں کہ میں پرانی پوسٹ کو بھی ریسائیکل کرکے نئے تبصروں سے پرانے لوگوں کی پھر چٹنی بنا سکتا ہوں تو سمجھ لیں کہ علم و دانش اور فن تحریر کہ معرفتوں پر روانہ ہوچکا ہوں۔ میرے بلاگ پر ہیلمٹ پہن کر آئیے گا۔ ورنہ میرے کئی سو فٹ لمبے تبصرے آپ کی وکھیاں تک سیک دیں گے۔
اگر گھوسٹ مرشد سے مذاکرات ناکام ہوگئے تو میرے پاس سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ میں اپنے بلاگ سے ٹوٹر کا کام لوں۔ آج کا پکا ہوا سالن ، نچھ آنے کا ٹائم ، پاجامے کا رنگ ، میری تیری سب کی سالگرہ۔۔۔غرض ہر چیز کی مختصر اپڈیٹ بمع وقت اور تاریخ کے ساتھ۔ ٹوٹر کلامی کے لئے تبصراتی دعا کی ضرورت ہوگی۔ خدا اگلے سال میری تحاریر اور آپ کے تبصروں میں برکت دے۔
رب راکھا!
اٹس واٹ ٹائم۔۔۔
ReplyDeleteD:
اے جواں تو مرشد سے بازی لے گیا۔
ReplyDeleteلیکن اس آپ بیتی میں ایک چیز کی کمی ہے اور وہ ہے دعا۔
ReplyDeleteدعا کے بغیر یہ تحریر خاصی سیکولر لگ رہی ہے۔ تو آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی، ہم جنہیں حرف دعا یاد نہیں۔ مگر ہم دوسروں کے جذبات کی ترجمانی تو کر سکتے ہیں۔ خدا کرے کہ اس سال آپ مرشد سمیت کسی کے بلاگ پہ تبصرہ نہ کریں۔ خود تو بے غیرتی کا ہیلمیٹ پہنا ہوا ہے اور ہر جگہ سنگ باری کرنے پہنچ جاتے ہیں۔
:d:
اچھی خاصی ملائی تحرير کو سيکولر کہہ ديا ۔ ہو سکتا ہے کہ طالبان کو پتہ چلے تو وہ ہزاروں ڈالر دے کر خريد ليں اور مستقل گاہک بن جائيں
ReplyDeleteمجید بیکری پڑھ کر میں بے اختیار ہنس پڑا۔
ReplyDeleteپر نہ جانے کیوں چول مارنے سے رکتے نہیں۔ کینیڈا کی روٹی اور پاکستان کے رونے کا پڑھ کر سخت بدمزہ ہوا اتنا ہی جتنا تمہاری آپا کر دیتی ہے۔
جس کا جدھر دل اٹکا ہے وہ ادھر کے ہی گن گاتا ہے۔ آمریت کا علم ہے؟
کیا تجھے پکا یقین ہے کہ تو ”گائے کی آپ بیتی“ پہ مضمون لکھ سکتا ہے؟
ReplyDeleteعنیقہ آپ کا یہ کہنا ہے کہ یہ آپ بیتی ہے ۔ جبکہ میری رائے یہ ہے کہ سال کے اختتام پر یہ آڈٹ شیٹ ہے ۔ اب اسکی وضاحت عثمان ہی کر سکتے ہیں ۔ بُہت شُکریہ
ReplyDeleteبلکہ چارج شیٹ ہے ۔۔۔ اب دیکھیں عُثمان کیا کہتے ہیں ۔۔بُہت شُکریہ۔
ReplyDeleteیہ تحریر پڑھ کر طبیعت محظوظ ہوئی۔
ReplyDeleteبخدا ہمیں کئی بلاگروں کی تحریریں دیکھ کر سب سے پہلا کیال یہی آتا ہے کہ انھوں نے اپنے قلم کی نب کس چاقو سے تیار کی ہے؟
ReplyDeleteآپ کے غمگین نغمہ پر اس کے بعد نمودار ہوئے غمگین ترین نغمہ کی یاد ہمیں کچھ یوں آئی.
مجھے اوروں کے تبصروں کی ضرورت کیا، میں تو خود ہی سب لکھ جاؤں
مائی فیم از خود کلامی، عثمان میاں کی بلاگنگ
نیز یہ کہ اگر آپ کو گائے والا مضمون یاد ہے تو دنیاں کے کسی بھی موضوع پر لکھ سکتے ہیں. مثلاً "ہوائی جہاز کا سفر" کے عنوان کے تحت کچھ یوں لکھیں... میں ایک بار ہوائی سفر پر نکلا تو مجھے راستے بھر میری گائے یاد آتی رہی. میری کگائے گا رنگ سفید ماتھے پر ایک چتکبرا دھبہ... الخ
ویسے عثمان میں جب بھی لکھتے ہیں خوب لکھتے ہیں. بس دوسروں کے پیغامات پر تبصرہ کرتے ہوئے تھوڑا سا اپنی حالیہ تہذیب سے متاثر ہو کر لکھ بیٹھتے ہیں.
میں یہاں ایک وضاحت ضرور کر دوں کہ یہ جو لفظ 'خود' میں نے اپنے تبصرے میں استعمال کیا تھا اس میں آپ اکیلے نہیں وہ گھوسٹ مرشد بھی شامل ہے. جس کے نام کا سہارا لے کر آپ اپنی بلا اسکے سر ڈالنے کی تیاری میں ہیں.
ReplyDeleteعثمان بہترین....بہت عمدہ......شاندار..... اس کے علاوہ اور بھی جو جو تعریفی الفاظ کسی کی تعریف کرتے ہوئے لکھے جاتے ہیں...وہ سب کے سب آپ کی اس پوسٹ کے نام :) لگ ہی نہیں رہا تھا یہ وہ مار ڈھار والے عثمان صاحب ہیں....یہ عثمان تو اپنے نام کی طرح معصوم لگ رہے ہیں سچی : )
ReplyDeleteمجھے آپ یہ بتائیں کہ آپ نے یہ پوسٹ ایک ہی نشست میں بیٹھ کر لکھی یا آہستہ آہستہ سوچتے ہوئے...؟؟؟؟
جعفر : آل ٹائم از مائی واٹ ٹائم :aaa:
ReplyDeleteعنیقہ ناز : یہ تو دیباچہ ہے۔ باقی ذمہ داری گھوسٹ مرشد کے کاندھوں پر ہے۔ میں مرشد کی تحریر میں بین السطور وہ کچھ دیکھ سکتا ہوں جو کوئی اور نہیں دیکھ سکتا۔ ایسے میں وضاحت کی ضرورت کہاں :mrgreen: ۔ تبصرے کم کرنے والا مشورہ صائب ہے۔ خود میں نے کوشش کی ہے۔ لیکن پھر کچھ عرصہ بعد نیا لفڑا۔ اب مرشد ہی کوئی دم درود کرے تو کرے۔ :d:
افتخار اجمل بھوپال : شکریہ۔ طالبان ڈالر دینے کا نہیں ، لینے کا کام کرتے ہیں۔
بدتمیز : مثل مشہور ہے کہ ہر بندہ ہر وقت ہرکسی کو خوش نہیں رکھ سکتا۔ چلئے آدھی تحریر ہی پسند آئی۔۔ممنون ہوں۔ :-D بدمزہ ہونے کی ذرا ہور وضاحت کریں۔ اور یہ آمریت کس چڑیا کا نام ہے؟ 8-O
ڈفر : تیری تو برسی منانے کا ٹائم آرہا تھا۔ تو واپس کیسے آگیا؟ گائے چھوڑ ، میں تو تیری بعد از مرگ ڈفر بیتی لکھنے کے چکر میں تھا۔ 8-O
ایم ڈی : چارج شیٹ کہاں ، یہ تو اعترافی بیان ہے۔ :cry:
احمد عرفان شفقت : چلئے جناب ، ہماری طرف سے سال نو کا تحفہ سمجھیں۔ :-D
ابن سعید : آپ نے تعریف کی ، ہمیں اعتبار آیا :-P۔ مطلوبہ مضمون کے لئے جہاز کی ضرورت ہی نہیں۔ ہوائی گائے کا سفر کام دے گا۔ گائے کے پر برآمد کرنا آپ مجھ پر چھوڑ دیں۔ :z:
امن ایمان : خوش آمدید! اہل علم میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ عثمان نام کا ایک مطلب صحرائی سانپ بھی ہے(واللہ علم)۔ جو کہ ظاہر ہے اتنا معصوم نہیں۔ مار دھاڑ کو آپ اس خصلت سے تعبیر کرلیں :-P ۔ اچھی اور رواں پوسٹ لکھنے کے لئے اس کا ایک ہی نشست میں نازل ہونا ضروری ہے۔ نوک پلک سنوارنے کے لئے جتنی مرضی اضافی نشستیں رکھ لیں۔ یہی طریقہ یہاں بھی اختیار کیا ہے۔ :glasses:
سر کی خشکی کا علاج گنجے ہوجائیں ۔۔ اور گھوسٹ سے کہیں ٹنڈ پہ گِن کے 100 چپت لگائے :-P
ReplyDeleteواہ جناب مزا آگیا ۔ بہت دنوں بعد کوئی چیٹ پٹی تحریر پڑھنے کو ملی ۔ ویسے تمہاری کلامیاں کچھ طول نہیں کھینچتی جا رہیں ۔:) ۔ خود کلامی سے ایویں کلامی تک آپہنچے ۔امید ہے اور بھی کلامیاں پڑھنے کو ملیں گی ۔
ReplyDeleteارے ہاں ایک خود کلامی کا تو میں خود شکار ہوں ۔ لکھتا ہوں اپنے بلاگ پر ۔ دماغ کی بتی جلانے کا شکریہ ۔ :)
حجاب : ششش۔۔۔ آرام سے۔۔کہیں گھوسٹ سن ہی نہ لیں۔ وہ سچ مچ حجامت کرڈالتا ہے۔ کئی لوگوں کی ماضی میں ہوچکی ہے۔ :j:
ReplyDeleteظفری : پسندیدگی کا شکریہ :-D ۔ آپ کی کلامی کے منتظر ہیں۔
سچی بات ہے بھئی! نہ تو کسی کی واٹ محسوس ہورہی ہے اور نہ ہی کوئی سیکولر و لاسیکولر وغیرہ وغیرہ. مجھے تو یہ ایک بہترین اور شاندار بے لاگ تحریر لگ رہی ہے. بلکہ میں تو سوچ رہا تھا کہ اگر یہ 'ایویں' ہے تو پھر غیر ایویں کتنی زبردست ہوگی. واقعی ہیلمٹ پہننا ہی پڑے گا :)
ReplyDeleteعثمان ۔۔۔۔۔۔۔ ایک بات تو ہے آپ کافی نہیں بہت زیادہ لائق ہو ۔۔۔ پتا نہیں کہاں کہاں اپنے لائقی کو ضائع کرتے پھرتے ہو ۔۔۔ اس تحریر میں کچھ لگا کہ کچھ کچھ کسی کے بارے میں ہے ۔۔۔ چلو کوئی نہیں جس کے بارے میں بھی ہے وہ خود جواب دے ۔ اگر آپ گائے پر لکھ سکتے ہو تو پھر گاما پر بھی لکھ لو گے ، مجھے پورا یقین ہے ۔۔۔ اب گاما کی واٹ لگاو ۔۔
ReplyDeleteواہ بھئی زبردست، لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ایک سکیولر تحریر ہے تو پائی جی ایک شدت پسند کو یہ سکیولر تحریر پسند آئی ہے. کہیں میرے خیالات میں تبدیلی تو نہیں آتی جارہی ہے رفتہ رفتہ؟ اللہ خیر کرے. :g:
ReplyDeleteویووڈ انٹرٹینمنٹ سے معاملات طے نہ پانے کا افسوس تو ہوگا کہ آپ آج شہرت کی بلندیوں پر ہوتے اس سے زیادہ جتنا اردو بلاگستان میں ہیں. :mrgreen:
محمد اسد : غیر ایویں تحریر کے لئے ہیلمٹ کے ساتھ ساتھ پیڈ ، دستانے بلکہ پوری کِٹ پہننا ہوگی۔ :-D
ReplyDeleteتانیہ رحمان : میں اور لائق :r: اور یہ گاما انکل کون ہیں؟ 8-O
وقار اعظم : آپ کے خیالات میں تبدیلی ناممکن ہے۔ آپ نے پہلے ہی لوہے کا ہیلمٹ اور چشمہ پہن رکھا ہے۔ :z: