29 April 2011

اعتقاد کی چاہت

تمام تر ترقی اور معراج علم کے باوجودعجیب و غریب اعتقاد رکھنے والے کہیں بھی کسی سے کم نہیں .. کہ علم محض آگاہی کا موقع ہی فراہم کرتا ہے ، خصلتوں میں تبدیلی کا دعویددار نہیں۔ متبادل ادویات ، روحانی علاج ، دست شناسی ، ستارہ پر ایمان ، پتھر سے علاج ، دھات سے اطمینان ، اعداد کا خوف ، رنگوں کا وہم ، ... اعتقاد کھڑا کیجئے ... پرستش کو پجاری ملیں گے۔ اعتقاد محض رنگ روپ بدلتا ہے ، ایک فیشن سے دوسرا فیشن اختیار کرتا ہے .. لیکن اس کے وجود کو زِک نہیں پہنچتی۔ معبد آؤٹ آف فیشن ہے تو سپا موجود ہیں۔ مختلف اقسام کی دوا ، رنگ ، موسیقی اور روشنیوں سے آپ کو شفا دیں گے .. جسمانی بھی ، روحانی بھی۔ ارواح سے وصال کو میڈیم ہیں ، بدخوابی سے چھٹکارے کو "ڈریم کیچر" ہیں۔ ادھر یوگی ، جوگی سب موجود ہے ، ستیا سئی بابے نے ایویں نئیں یہاں پجاری بنائے۔
لیکن اُم العتقاد .. یعنی مذہب .. پجاریوں کا سب سے بڑا معبود ہے۔ اعتقاد یہاں سے اٹھتے ہیں اور یہیں دم توڑتے ہیں۔ ساؤدرن باپٹسٹ ، پینٹے کوسٹل ، انا باپٹسٹ ، لُودھرن،  مینونائٹ ، مورمن ... ادھر قدامت پسند عیسائی فرقوں کی ایک طویل فہرست ہے جن کے مذہبی عقائد اور ایمان ایسے تصورات پر قائم ہیں کہ دیومالائی قصے کہانیاں اس کے آگے مانند پڑ جائیں۔
"پال یہ کہتا ہے ، پال وہ کہتا ہے ، پال ہی درست ہے کیونکہ پال کہتا ہے!" ... ایک مذہب پرست عیسائی کو پڑھیے ، آپ کو یہی کچھ ملے گا۔
"مجھے سمجھ نہیں آتی کہ تم یسوع مسیح کی خدائی کے قائل کیوں نہیں؟"
"میں یہ اعتقاد کیوں رکھوں؟" .. میں نے استفسار کیا۔
"It's an ultimate fact" ..  جواب ملا۔ کسی جنوبی امریکی مذہب پرست معاشرے سے نووارد تھا۔ غیر عیسائی سے مذہب پر مفصل بات کا موقع ملا تو پھٹ پڑا۔
یہاں ، ادھر ، اس جدید تہذیب کے بیچ ایسے لوگ بھی آباد ہیں جو اپنے مذہبی اعتقاد کے تحفظ کے لئے سائنس ، حقائق ، استدلال ، ریشنلزم .. غرض ہر اُس شے سے نفرت کرتے ہیں جو ان کے اعتقاد کو متزلزل کرے۔ ان میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ زمین اور آسمان محض چھ ہزار سال پرانے ہیں۔ خداوند نے زمین اور آسمان کو چھ دنوں میں.. زمینی چھ دنوں میں ، .. اصطلاحی معنوں میں نہیں ..، حقیقتاً چھ دنوں میں تخلیق کیا ، اور ساتویں دن آرام کیا ، جیسے  قیلولہ کرتے ہیں۔ ارتقاء ، بگ بینگ ، فلکیات ، طبعیات ، جیالوجی ، ... سب "سائنس کی بڑ" ہے۔ "عقل پرستوں" کی "عقل پرستی" ہے۔
ان کے آگے تحقیق و استدلال کا انبار کھڑا کر دیں، ثبوت کے ثبوت قدموں میں لا رکھیں ... وہ جواباً کہیں گے .. کہ ہاں! .. یہ ثبوت بھی ہیں اور یہ دلائل بھی .. صرف اس لئے کہ خدا تمھیں دھوکے میں رکھے۔ کہ خدا نے جب چھ ہزار برس قبل کائنات بنائی تو اسے ایسا ترتیب دیا کہ لگے کہ چودہ ارب سال پرانی ہے، گمان گزرے کے اس کی وہی تفصیل ہے جو سائنس بیان کرتی ہے۔ زمین تخلیق کی تو اس کی چٹانوں کو ایسے ترتیب دیا کہ دھوکا ہو کہ جیسے پانچ ارب سال پرانی ہے۔ زندگی تخلیق کی تو قدیم فوسلز زمین میں بکھیر ڈالے محض اس لئے کہ مذہب کے منکر بہک جائیں۔
غور کیجئے۔ اس طریقہ "استدلال" کو بڑھاتے ہوئے کہہ سکتا ہوں کہ یہ کائنات آپ سمیت محض ایک لمحہ قبل ہی وجود میں آئی ہے۔ بس خدا نے اس کی ساخت بشمول آپ کی شخصیت اور سوچ کو ایسا ترتیب دے ڈالا کہ لگے کئی برس بیت چکے ہیں۔ لیکن یہ استدلال کا کھیل نہیں ، مذہبی معبد ہے ، مذہب کی طرف واپس چلتے ہیں۔
.. تو یہ مغربی مذہبیے کوئی جاہل نہیں .. بلکہ ان میں بڑے بڑے حیرت گر موجود ہیں ، اور یہی تو کمال ہے۔ رچرڈ ڈاکنز ایک جیالوجسٹ کرٹ وایز کا تذکرہ کرتا ہے جو ہاروڈ یونیورسٹی سے جیالوجی میں پی ایچ ڈی ہے۔ مذہب پرست عیسائی ہے۔ انجیل پر اپنے ایمان سے متعلق کرٹ وایز کا بیان ہے :

"اگرچہ زمین کی نوعمر تخلیق کے حق میں کچھ سائنسی دلائل موجود ہیں ، لیکن میں Young Earth Creationist ہوں کیونکہ مقدس کتب سے میرا فہم یہی اخذ کرتا ہے۔ جیسا کہ برسوں پہلے جب میں کالج میں تھا تو اپنے اُستاد سے کہا کہ اگر کل کائنات کے تمام ثبوت تخلیق کے خلاف (یعنی ارتقاء کے حق میں) گواہی دے ڈالیں تو میں آگے بڑھ کر ان ثبوتوں کو تسلیم تو کرلوں گا لیکن پھر بھی کریشنسٹ (ارتقاء کا منکر) ہی رہوں گا کیونکہ خدا کے الفاظ اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ میں خدا کے ساتھ ہوں۔"

یہ ہیں وہ لوگ ہیں جو اعتقاد کو آگے رکھ کر سائنس کی کاٹھ اس کے پیچھے جوتتے ہیں۔ مشہور دہریے رچرڈ ڈاکنز کا کہنا ہے کہ اگر ایک شخص ایسے احمقانہ خیالات رکھے تو اسے پاگل پن کہتے ہیں اگر ایک سے زائد شخص ان خیالات پر یقین رکھے تو اسے مذہب کہتے ہیں۔ ڈاکنز مذہب پر غلط ہو نہ ہو ، مذہب پرستی پر کبھی غلط نہیں رہا۔
مذہب ہو یا کوئی بھی اعتقاد .. انسان چاہتا ہے کہ وہ یقین رکھے۔ اعتقاد کی کشش اور اسرار لاعلمی سے نہیں چاہت سے جنم لیتی ہے۔ خلائی مخلوق کی تلاش میں دن رات سرگرداں فاکس مولڈر کا ماٹو تھا:

I Want To Believe

22 January 2011

12Angry Men

کمرہ ..کمرے میں اک میز ..اور بارہ آدمی
یہ کل منظر ہے۔
کسی نامعلوم شہر کی ایک عدالتی جیوری میں ایک مقدمہ درپیش ہے۔ اٹھارہ سالہ لڑکا جس پر باپ کے قتل کا الزام ، دو ناقابل اعتماد گواہ ، ایک خنجر ..آلہ قتل۔ قاتل، مقتول، گواہان ، جج ، وکیل ، پولیس .. ہرکردار تقریباَ غائب المنظر .. ماسوائے جیوری کے بارہ آدمیوں کے۔
بارہ آدمی ..

ایک سنجیدہ نقشہ نویس ..ایک مضطرب نوجوان ..ایک باوقار بوڑھا ..ایک چالاک بروکر ..ایک احمق سیلزمین ..ایک بدزبان مکینک ..ایک بیزار ایگزیکٹیو ..ایک پرجوش تارک وطن ..ایک غصیلا تاجر ..ایک شرمیلا کلرک ..ایک کم گو رنگ ساز ..ایک مستعد فٹ بال کوچ۔متغیر اور باہم متصادم مزاج کی حامل ان شخصیات .. معاشرے کے ان بظاہر عام سے کرداروں کو ایک انتہائی جاندار اور اثرانگیز سکرپٹ کے ذریعے نہایت خوبصورتی سے ایک منظر میں پرویا گیا ہے۔

بلیک اینڈ وائٹ .. ۱۹۵۷ء میں بنی یہ فلم ..تقریبا تریپن سال پرانی ہے۔ ایک کمرے اور ایک ہی نشست میں دکھائی گئی ہے۔ غیر معروف اداکار ..میانہ درجے کی اداکاری ..بے رنگ سیٹ ..بھونڈی سی پس پردہ موسیقی۔ ایکشن ، کامیڈی ، رومانس ، ایڈونچر،سسپنس، ٹیمپو سے مکمل عاری۔ کسی کردار کا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔ مقدمہ میں ملوث افراد؛ لڑکا ، باپ ، نچلی منزل کا رہائشی بوڑھا اور گلی کے پار خاتون کے اسم سے ظاہر کئے گئے ہیں۔ اور تو اور .. فلم میں کوئی خاتون تک نہیں دیکھائی گئی .. اورسنیں۔ لیکن ایک انتہائی شاندار سکرپٹ کے نیچے یہ تمام بے جان عناصر باہم مل کرایک ایسا شاہکار آرٹ تشکیل دیتے ہیں جو بالکل اچھوتا اور یکتا ہے۔ اس جیسا لیگل یا کورٹ ڈرامہ اور کوئی نہیں .. کہ روائتی کورٹ یا کرائم ڈرامہ کے برعکس، کوئی عدالتی کاروائی یا تفتیش نہیں دیکھائی گئی۔ اسی پر بس نہیں .. فلم کی کہانی بھی کوئی ایسی منفرد نہیں ..بالکل پھسپھسا سا مرکزی خیال ہے۔ لیکن اس پر اس قدر شاندار سکرپٹ کیسے بن گیا؟ .. ایسی سادہ بنیاد پر ایسی پرشکوہ عمارت کیسے کھڑی کی؟ .. یہی تو کمال ہے!
مقدمہ بین السکرین مکمل ہوچکا ہے۔ صرف جیوری کا فیصلہ باقی ہے جسے ملزم کا جرم ثابت کرنا مقصود نہیں ..بلکہ کیس میں موجود کسی بھی ابہام کی تسلی کرنا ہے۔ ہر شخص اس بظاہر سادہ سے کیس سے جان چھڑا کر اپنی راہ لینے کا خواہاں ہے ماسوائے جیوری کے ایک رکن کے .. جس کے نزدیک مقدمہ کی تفصیل اتنی سطحی ..اتنی سیدھی اور اتنی یقینی نہیں جتنی کے دیکھائی دے رہی ہے۔ فیصلہ میں معمولی کوتاہی ملزم کو بجلی کی کرسی تک پہنچا رہی ہے۔ لہذا نتیجہ پر پہنچنے سے پہلے کچھ مکالمہ کی ضرورت ہے .. جلد بازی کے بجائے کچھ گفت شنید چاہیے اور کل فلم ،تمام ڈرامہ .. یہ مکالمہ..یہ گفتگو ہے۔
فلم میں سسپنس نہیں بلکہ تھرل ہے۔ جو کیس کی تفصیل کے پس منظر میں جیوری کے اراکین کے باہمی تناؤ اور تلخ کلامی کے ذریعہ نہایت سست روی سے پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے۔ مقدمہ کی تفصیل اور جیوری کے اراکین کے کریکٹر ڈویلوپمنٹ متوازی چلتے ہیں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے .. مقدمے کی تفصیل مبہم لیکن کرداروں کی شخصیات کے خفیف و جذباتی پہلو واضح ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ثبوت..گواہان .. مقتول اور حتی کہ کل مقدمہ جیسے غیر یقننی ہوتا جاتا ہے۔ اور جیوری کے اراکین ہیں .. کہ اپنی کمزوریاں.. اپنی بشری کوتاہیاں جیسے سرنڈر کرتے جارہے ہیں۔ کسی کا انجام کرنے آئے اور اپنا باطن پلٹا گئے۔


آپ کی طرح میں نے بھی اس کی سیٹنگ ، زمانہ اور بلیک اینڈ وائٹ ہونے پر منہ بنایا تھا۔ لیکن فلم دیکھنے کے بعد میری فلم بینی کا ٹیئسٹ یکسر بدل چکا ہے۔ میں اب پچھلے کچھ عرصہ سے وہ فلمیں دیکھنے میں مصروف ہو جو شائد میرے دادا جان سکول سے پھُٹا لگا کر دیکھنے جایا کرتے تھے۔ ذرا ہمت کرکے دیکھیے ..بلکہ سمجھیئے کہ یہ سمجھنے کے لائق ہے۔

30 December 2010

ایویں کلامی

خود کلامی لکھنے سے پہلے میں یہی کام زبانی کلامی کرتا تھا۔ گھر میں کرتا تو کہتے باہر جا۔ باہر کرتا تو لوگ جمائیاں لیتے کہتے جا گھر جا۔ شروع ہی سے مجھے کامل یقین تھا کہ تمام بڑے ادیب ، لکھاری اور فلسفی اسی کیفیت سے گزرتے ہیں۔ یعنی آہیڈ آف ٹائم ۔۔اُرلے لوگ پروا نہیں کرتے۔ لہذا اپنے آپ کو اس اُرلی منزل پر تصور کرتے ہوئے آگے بڑھو۔ اس وقت تک مجھے صرف گائے کا مضمون ہی لکھنا آتا تھا۔ لیکن مجھے انڈر ایسٹمیٹ نہ کریں۔ میں گائے کا مضمون بھی چھ مختلف طریقوں سے لکھ سکتا ہوں: گائے اعظم ، ایک گائے کا آنکھوں دیکھا حال ، گائے کی سیر، گائے کے فوائد و نقصانات ، گائے کی آپ بیتی۔۔۔ خیر اتنا تو مجھے پتا چل چکا تھا کہ آپ ایک ہی گائے بار بار نہیں مار سکتے۔ عظیم سے عظیم سیریل بھی چند اقساط کے بعد ٹھس ہوجاتا ہے ، یہ تو پھر گائے ہے۔ کالج کے اولین دنوں میں ایک شفیق استاد مولوی منیر حسن کے زیرتربیت میں سنجیدہ ادب سے شدید متاثر ہوا۔ تصنیف کی ٹھانی تو اس سلسلے میں پہلا اہم کام کسی پبلشر کی تلاش تھی۔ بقول مولوی صاحب اگر پبلشر نہ ملا تو انجام مولوی صاحب والا ہوسکتا ہے۔ جانے اس سے ان کی کیا مراد تھی؟ خیرخدا خدا کرکے پبلشر کی تلاش کا کام شروع کیا گیا۔ برصغیر پاک و ہند کے تمام نامور اشاعتی اداروں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد آخر میری نگاہ انتخاب مجید بیکری سوڈیوال پر ٹھہر گئی۔ طے پایا کہ ہروڈی ڈبل روٹی کے لفافے میں ایک عدد افسانہ پھنسایا جائے گا جس کے عوض فاضل افسانہ نگار حامل ہذا (ڈبل روٹی) کو ہدیہ مطالبہ پر ادا کرے گا۔ کاروبار کے آغاز میں کچھ سرمایہ تو لگانا پڑتا ہے۔ تاہم سوڈیوال جیسے بیک ورڈ علاقے میں کلاسیکی ادب کی کوئی قدر نہ ہونے کے سبب ٹارزن کی کہانیوں کا یہ سلسلہ ذیادہ دیر جاری نہ رہ سکا۔ اس کل عرصہ میں جتنا سرمایہ خرچ ہوا اس سے میں اپنی بیکری کھول سکتا تھا۔ لیکن میں ہمت ہارنے والا بندہ نہیں۔ ہمیشہ فرنٹ میں باں ڈالی ہے۔ مایوسی کے بادل جلد ہی چھوٹ گئے اور میرا باہر کا "دا" لگ گیا۔
باہر آکر میں نے بڑے بڑے ہاتھ پاؤں مارے۔ گورے کے دیس میں محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ چیپٹرز والوں کے ساتھ ڈیل ہوگئی۔ معاوضہ معقول تھا۔ ہفتے میں چالیس گھنٹے کام۔دوسروں کی کتابیں انہی کے نام سے فروخت کرنا تھیں۔ لیکن میری طبع خود بیزاری کو یہ کہاں گوارا تھا۔ ناول نگاری سے مایوس ہوکر میں نے اسکرپٹ رائٹنگ پر ہاتھ چلائے۔ لیکن اسکرپٹ میں چیخیں کم ہونے کے سبب Vivid Entertainment سے معاملہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ جہاں لوگ دس منٹ کا کلپ دیکھ لیتے ہوں وہاں اشٹوری کون پوچھتا ہے۔
اُدھرسیانے کا کہنا تھا کہ ہمت نہ ہارو۔ اگر اُرلے لوگ پروا نہیں کرتے تو پرلوں پر قسمت آزماؤ۔ میں نے یہ نصیحت پلے باندھ لی۔ تصنیف کے ساتھ ساتھ اشاعت کی ذمہ داری بھی اٹھاتے ہوئے اردو بلاگستان میں اپنی ذاتی دکان کھولی۔ تاہم کاروباری دنیا کا ایک لافانی اصول ہے کہ آپ آؤٹ آف سیزن مال نہیں بیچ سکتے پاویں کچھ ہوجائے۔ میرا آہیڈ آف ٹائم درحقیقت آؤٹ آف ٹائم ثابت ہوا۔ اپنے عہد بلاگنگ کے حوالے سے اس موقع پر وہ غمگین غزل یاد آرہی ہے:
؎ عثمان بدنام ہوا۔۔۔بلاگنگ تیرے لئے
فی الوقت سیانے کا نادر مشورہ ہے کہ لکھنا چھوڑو اور ٹائپنگ شروع کرو۔ نیا بلاگ بناؤ۔ ہمرا سوہنا جیوے پاکستان۔ کینیڈا کی روٹیوں پر پاکستانی آٹے کا غم کرو۔ لیکن بے غیرتی بھی کوئی چیز ہے اور میں اس میں کافی خصیص طبیعت واقع ہوا ہوں۔
مثل مشہور ہے کہ تاریخ آپ کی گھماتی ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ادھر بھی ہے۔ برسوں بعد مجھے ایک بار پھر ذہنی خشک سالی کا سامنا ہے۔ کینیڈا کی سردی کی وجہ سے میرے سر میں کھرک پڑ چکی ہے۔ خارش کرنے پر ان لکھی تحاریر کے باسی الفاظ جھڑتے ہیں۔ اب تو میں ڈبل روٹی بھی نہیں کھا سکتا۔ فی الوقت میں نے ایک گھوسٹ مرشد کے ہاتھ بیعت کی ہے۔ جو مجھے ہر قسم کا فن سکھائے گا۔ تو بس پھر۔۔
قارئین کرام۔۔
اگر آپ سال نو پر مجھ میں کوئی تبدیلی محسوس کریں۔ کہ کیسے میں بوٹوں کے تسمے سلجھاتے سلجھاتے تاریخ کی گھتیاں سلجھا لیتا ہوں۔ اگر آپ مجھے گاڑی کے پرزے درست کرتے ہوئے اس میں سے انسانی جذبات کشیدکرتا پائیں۔ اگر آپ دیکھیں کہ میں چیونٹیوں کی ہجرت میں تاریخ پاکستان سمو سکتا ہوں۔ اگر آپ دیکھیں کہ میں پرانی پوسٹ کو بھی ریسائیکل کرکے نئے تبصروں سے پرانے لوگوں کی پھر چٹنی بنا سکتا ہوں تو سمجھ لیں کہ علم و دانش اور فن تحریر کہ معرفتوں پر روانہ ہوچکا ہوں۔ میرے بلاگ پر ہیلمٹ پہن کر آئیے گا۔ ورنہ میرے کئی سو فٹ لمبے تبصرے آپ کی وکھیاں تک سیک دیں گے۔
اگر گھوسٹ مرشد سے مذاکرات ناکام ہوگئے تو میرے پاس سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ میں اپنے بلاگ سے ٹوٹر کا کام لوں۔ آج کا پکا ہوا سالن ، نچھ آنے کا ٹائم ، پاجامے کا رنگ ، میری تیری سب کی سالگرہ۔۔۔غرض ہر چیز کی مختصر اپڈیٹ بمع وقت اور تاریخ کے ساتھ۔ ٹوٹر کلامی کے لئے تبصراتی دعا کی ضرورت ہوگی۔ خدا اگلے سال میری تحاریر اور آپ کے تبصروں میں برکت دے۔
رب راکھا!